Reciter: Shadman Raza
ہئے اکبر ہائے زینب
ہائے اکبر ہائے زینب
ہائے اکبر ہائے زینب
ہائے اکبر ہائے زینب
اپنے بچوں کو کہاں زینب مضطر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
لال زینب کے سر کرب و بلا قتل ہوئے
لائے جب شاہ زمن دونوں کے لاشے رن سے
ایک بھی پل کیلیے ان کو نہ مادر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
اپنے بچوں کو کہاں زینب مضطر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
ہاتھ پر باپ کے جب بے شیر کا حلق چھدا
اپنے اصغر پہ کیا بنت علی نے گریہ
پھر بھی کب بانوِ بے کس کے برابر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
اپنے بچوں کو کہاں زینب مضطر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
سخت دشوار تھا یہ بات کا دل پر سہنا
نہر سے سامنے عباس کے خیمے ہٹنا
گرچہ اس ظلم پہ بھی زینب مضطر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
اپنے بچوں کو کہاں زینب مضطر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
مانگنے آیا جو خیمے میں جری رن کی رضا
جوڑ کے ہاتھوں کو خاموش کھڑا تھا سقإ
دیکھ کر اپنے برادر کا جھکا سر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
اپنے بچوں کو کہاں زینب مضطر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
جن کو پانی نہ ملا ہائے رے وہ خستہ جگر
قطرہ آب کو ترسے ہوئے ان بچوں پر
دشت میں شیر خدا آپ کی دختر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
اپنے بچوں کو کہاں زینب مضطر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
آج ہر نور نظر مجھ سے بچھڑ جائے گا
سوچ کر یہی کہ گھر میرا اجڑ جائے گا
صبح عاشور بہت شاہ کی خواہر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
اپنے بچوں کو کہاں زینب مضطر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
جس سے ڈھارس تھی بہت ہائے وہ سقإ حرم
جسںکے مر جانے سے پیاسوں کا بڑھا اور بھی غم
اس کے پرچم سے لپٹ کر بھی تو اکثر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
اپنے بچوں کو کہاں زینب مضطر روئی
ہاں مگر لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی
غم تھا بس حشر میں اظہار یہی زینب کو
آ گیا یاد جو ہم شکل نبی زینب کو
دیکھ کر نانا کو ایسے سر محشر روئی
جس طرح لاشہ اکبر پہ تڑپ کر روئی