Reciter: Tejani Brothers
کانوں میں آی سرور کے جب صداے اکبر
گھٹنوں کے بل شاہ دیں پہنچے ہیں سوے مقتل
دیکھا جگر کے ٹکڑے کو ایڑیاں رگڑتے
برچھی پکڑ کے بولے یہ شاہ دیں اس پل
اکبر تیرے جگر سے برچھی نہیں نکلتی
کہتے تھے شاہ والا آی ہے کیا مصیبت
مشکل میں جان ہے میری خستہ ہے تیری حالت
سینے پہ کیسے ٹوٹی بیٹا تیرے قیامت
اکبر تیرے جگر کا ہے زخم کتنا کاری
چھوتا اگر مین ہوں تو ہوتا ہے خون جاری
کس بے رحم نے برچھی سینے پہ تیرے ماری
ٹوٹا ہے تو جو بیٹا میں بھی بکھر رہا ہوں
برچھی نکالنے کی کوشش میں کر رہا ہوں
رکتی ہیں تیری سانسیں پل پل میں مر رہا ہوں
درد و الم بخوبی میں تیرے جانتا ہوں
زخموں کی ٹھیس کو بھی محسوس کر رہا ہوں
تو جو تڑپ رہا ہے بیٹا میں کانپ رہا ہوں
شاید تیرے جگر میں برچھی کا پھل ہے الجھا
کھینچی ذدا جو برچھی تو درد سے ہے تڑپا
دیکھیں جو تیری نظریں چھانے لگا اندھیرا
تکلیف سے جو تیری حالت بگڑ رہی ہے
رہ رہ کے سانس میری جیسے اکھڑ رہی ہے
دنیا ہی جیسے میری بیٹا اجڑ رہی ہے
تجھ پہ ہے پل یہ بھاری، مجھ پہ ہے وقت مشکل
برچھی جو کھینچوں بس تو اپنا سنبھال لے دل
اے میرے لال اکبر دشوار ہے یہ منزل
نام علی جو لے کر برچھی کو شاہ نے کھینچا
برچھی کے ساتھ باہر بس آ گیا کلیجہ
فقرہ حسین کا پھر مقتل میں یہ نہ گونجا
پردرد باپ و بیٹا کا ہے بہت یہ قصہ
خون جگر سے جس کو توقیر نے ہے لکھا
ہونٹوں پہ ہے تیجانی کے دل خراش نوحہ